Ishq ki inteha part 2 ep9
ISHQ KI INTEHA 2
EPISODE 9.
“ شفا ، آج تم بے حد خوبصورت دِکھ رہی ہو ، اللہ پاك نے کیا حسن عطا فرمایا ہے تمہیں ، کیا ادا ہے تمہاری شفا ، اللہ
نزریبد سے بچائے“
شفا ، کان میں سونحیرئے جھمکے پہنتے بولی ،
“ جناب ، میں نے سنا ہے ، کے تعریفوں ، كے پُل كے نیچے مطلب کی ندیاں بہتی ہیں ، البتہ ، آپ میری خوشامد تو نہیں کر رہے “
حماد ، نے پلک جحپکا کر بولا .
“ اکون کم اقل ہے ، جو تم جیسی ، خوبصورت ، انسان کی خوشامد ، کرے ، البتہ اسکی ، ایسی جسارت بھی ہرگز نہیں ہو نی چاہئے “
شفا - “ حماد ، یہ خوبصورتی ، تو باہری بناوٹ ، ہے ، لیکن اصلی خوبصورتی انسان ، کی سیرت ہے ، جو اسے ، خوبصورت نا ہونے كے بجائے بھی سب لوگوں سے بے حد دلکش اور خوبصورت بناتی ہے”
حماد - شفا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ ، تمہاری سیرت میں کوئی عیب ہو ، یا کھوٹ ہو ، تم تو ہر اندازِ سے پاکیزہ ، اور صاف ، دِل رکھنے والی ، شخص ہو ، بھلا تمہاری سیرت پر کون ، شک کرے گا .
اچانک ، شفا آئینے کی طرف ، سے پلتی ، اوراس نے حماد كے لبوں پر اپنی انگلی رکھی ، اور دھیمی آواز میں لب کشائی کرنے لگی .
“ سش ، اتنی تعریف مت کرو میری ، ورنہ میں مغرور ہوجاوگی ، اور ویسے بھی پاك ذات ، تو صرف اللہ پاك کی ہے ، ہم انسان ، تو گناہوں ، كے سمندر جیسے ہیں ، جو ہر وقت ، غلطیاں کرتے ہیں “
حماد ، نے اپنے لبوں ، سے شفا ، کی انگلی ، حتائیی ، اور پیار كے اندازِ میں بولا .
“ شفا ، تم بے حد اچھی اور پاك ہو ، لیکن اگر میں نے ، اپنے گناہوں ، کا دسترخواہ تمھارے سامنے ، کھول دیا تو تم ، مجھے ایک نظر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کروگی “
شفا ، كے سر پر ، پریشانی کی لکیریں ظاہر ہونے لگی .
“ کیا اول فؤل ، بولے جا رہے ہو ، حماد ، یہ نا ممکن ، ہے ، كے ، میں تم سے خفا ہوں ، تم ، تو میری سانسوں میں بستے ہو ، تمہاری موجودگی ، مجھے اپنے پن کا احساس دلاتی ہے ، تم میرے لیے پانی ، کی طرح ہو جسکے بغیر ، انسان ، زندہ نہیں رہ سکتا ، تم میرے لیے میری زندگی ہو ، بھلا کون اپنی زندگی سے خفا ، ہو سکتا ہے ، غلطیاں کرنا تو انسان ، کی فطرت ہے ، لیکن اگر انسان کو اپنی غلطیوں کا احساس ہو جائے ، تو وہ غلطیاں معافی بھی ، حاصل کر سکتی ہیں ، لیکن گناہ ، کرنا میری نظر میں جرم کی طرح ہے ، گناہوں ، کی معافی خدا دے سکتا ہے ، لیکن گناہوں کی معافی میرے حق میں نہیں “
شفا ، تیار ہوکر وہاں سے جانے لگی ، لیکن حماد ، نے اسکا ہاتھ پکڑا اور شفا کو اپنی طرف کییحچا .
دونوں اک دوسرے کی آنکھوں میں ، دیکھتے رہے ، اور مدھوش ہوگئے ، ایسا لگ رہا تھا ، جیسے اک دوسرے کی آنکھوں میں ان کو راحت مل رہی ہو ، محبت ، انکی آنکھوں میں ، چیہک رہی تھی ، دونوں کی نزدیکی میں صرف ، کچھ انچون کا فاصلہ تھا .
جب سرحان ، كے ہاتھ کی سخت انگلیاں شفا ، كے ملائم ھاتھوں پہ جا لگی .
تو شفا ، کی دِل کی دھڑکنیں بے حد ، رفتار سے دورنے لگی .
شفا ، کی سانسیں تھمنے لگی .
حماد ، شفا ، كے چہرے کو بے حد غور سے دیکھ رہا تھا ، جیسے کوئی کھلی کتاب ہو .
شفا ، کی زلفیں ، أڑ کر ، اسکے چہرے پر آگئی ، حماد نے پیار بھرے ھاتھوں سے ان زلفوں ، کو ہٹایا ، اور شفا کو غور سے نہارنے لگا ، اور اسکے قریب آنے لگا ، حماد شفا كے چہرے پر رفتہ رفتہ ، اپنی انگلیاں گھمانے لگا .
اِس احساس ، کو شفا نے اپنے جسم میں سمایا ، وہ اپنی آنکھیں بُند کرنے لگی ، وہ دونوں اس لمحے کو باقائدگی سے جینے لگے تھے ، دونوں کی نزدیکی انکی چاہت کا ثبوت تھی .
اس کمرے میں بے حد خاموشی تھی ، ہلکی سی آواز بھی اُدھر موجود نا تھی .
لیکن ، سرحان نے ان دونوں کی نزدیکی ، کا مواعینا کیا ، اور اس نے ہلکے ہاتھ سے دروازہ نوک کیا .
یہ دیکھ ، دونوں ، سہم گئے ، شفا ، كے چہرے پر شرمندگی ، نے گھر کر لیا تھا . وہ شرما کر وہاں سے بھاگ گئی ، اور اریبہ كے کمرے میں گئی .
دوسری طرف ، حماد اور سرحان گفتگو کرنے لگے .
سرحان - بھائی ، امی آپکا ، باہر بےصبری سے انتظار ، کر رہین ہیں ، آفٹر آل آپکا آج نکاح ہے .
حماد سرحان كے پاس آیا اور اسنے حماد کے کندھوں پر اپنی بازو رکھی .
- جانتا ہوں ، میرے پیارے سے چھوٹے بھائی ، آج تمہیں رونق لگانی ہے ، میرے نکاح میں .
سرحان ، یہ سن استغفراللہ کرنے لگا .
- خدا کا خوف کریں بھائی ، نکاح ہے کوئی رخصتی نہیں ، ناچ گانے تو شادی کی محفل میں ہوتے ، ہیں ، آپکو اس محفل كے لیے منتظر ھونا پڑے گا ، کیوں کی شفا ، اتنی جلدی رخصتی نہیں کریگی .
حماد ، نے ہلکی ہاتھ سے سرحان كے سر پر تھپڑ مارا اور بولا .
- میرے بھائی ، زیادہ نہیں بولنے لگا تو ، اور سچ پوچھو ، تو وقت بے حد تیز ، چیز ہے ، وقت گزرتے پتہ بھی نہیں چلتا ، کہتے ہیں نا ، صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے ، اور عمر یہیں تمام ہوتی ہے ، اسلئے جلدی شادی بھی ہو جائے گی ، اور تمھارے ساتھ 6 ماہ کا وقت ، ایسی گزرا ہے ، جیسے 6 گھنٹے ہو . . .
سرحان - بھائی ، ٹینشن ناٹ ، شادی نا سہی ، لیکن شادی سے پہلے بھی آپ ، شادی كے مزے لوٹ رہے ہو .
یہ کہہ کر ، سرحان ہس کر وہاں سے فرار ہو گیا .
اور پیچھے سے حماد نے آواز ڈی .
- بیٹا ، رکو امی سے شکایت لگاونگا تمہاری .
دوسری طرف ، مغرب کی نماز كے بَعْد ، سارے لوگ ، گھر كے حال میں
اکھٹا. ہوئے
شفا ، سرخ لال جوڑے میں ملبوس تھی ، اسکے ہاتھ میں سونے ، كے دلکش کنگن تھے ، شفا ، کا گلا سونے كے ہار ، سے تنزیب تھا ، اور اسکے ماتحیے پر اک چنری .
دوسری طرف ، کالا کرتا اور پیشاواری چپل پہن کر حماد نکاح ، کی تقریب میں بہتا .
قاری صاحب نے نکاح کی تقریب کا آغاز کیا .
شفا ، اور حماد دونوں کی نظریں اک دوسرے سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی .
دیوانوں کی طرح وہ دونوں اک دوسرے کو تک رہے تھے .
لیکن ، نکاح كے تقریب كے دوران ، ایسا حادثہ پیش آیا ، جس نے شفا اور حماد کی زندگی کا پاسا پلٹ دیا .
مولوی صاحب ، نے شفا سے بے حد مرتبہ نکاح کی حازری کا پوچھا .
- کیا ، آپکو حماد بن کومیل سے نکاح منظور ہے .
لیکن ، شفا منہ پر تالا لگا کر بہتی تھی ، وہ بالکل چُپ تھی ، اسکی خاموشی ، اسکے انکار ، کو صاف ظاہر کر رہی تھی .
نکاح ، کی رضامندی ، پوچھتے پوچھتے د مولوی صاحب کا گلہ خشک ہو گیا ، لیکن شفا نے اپنے لبوں سے اک الفاظ نہیں ، نکالا . .
اریبہ ، بلکل خوفزدہ ہوگئی ، وہ شفا کو
تسلی دینے لگی ، اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر بولنے لگی .
- شفا بیٹے ، کیا بات ، ہے مولوی صاحب جو پوچھ رہے ہیں جواب دو ، اگر کوئی پریشانی تمہیں ستا رہی ہے ، تو تم مجھے بتا سکتی ہو ، یہاں گھروالوں كے علاوہ ، کوئی نہیں ، تم بے شک اپنی پریشانی کا اقرار کر سکتی ہو .
یہ ، سن ، شفا کی آنکھیں نم ہوگئی ، اسکی زبان لرخرانے لگی ، یہ الفاظ کہنے سے ، وہ بے حد کترائی ، یہ جسارت کرنے سے شفا نے اپنے آپکو روکا ، لیکن یہ نا کرنا اسکے حق میں نہیںُ تھا .
شفا ، کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے .
“ امی ، میں یہ نکاح نہیں کر سکتی ، یہ سمجھ لیجیے كے یہ میری مجبوری ہے”
یہ ، کہہ کر شفا ، اپنے آنسو پوچھتے پوچھتے ، شفا وہاں سے روانہ ہوگئی .
شفا ، كے انکار ، نے حماد کو خفا کر دیا ، اِس انکار نے حماد کا دِل پاش پاش کر دیا ، حماد کی آنکھوں میں نمی نے گھر کر لیا . . . .
اس نے شفا ، سے بات کرنے کی ٹھانی ، لیکن اریبہ نےاسے یہ کرنے سے روکا .
- حماد ، بیٹا اسے وقت دو ، وقت ہر مرض کا علاج ہے .
حماد ، نے اپنی ماں کی بات کی لاج رکھی ، اور اس نے اپنے قدم وہیں روک دئیے .
شفا ، کا انکار ، محض اسکی اک مجبوری تھی .
یہ ساری رنجشیں ، اور درارئین ، اس محبت كے خط ، کی سازش تھی ، جو اک لال گلاب كے ساتھ ، شفا كے ہاتھ لگا .
نکاح سے چند مینت پہلے کی بات تھی .
شفا ، ہاتھ میں بدام کا دودھ لے کے ، اریبہ كے کمرےمیں جا رہی تھی .
اچانک ، گھر کی دیلحییز پر اس نے وہ خط دیکھا ، اور اس نے کٹھ اپنی گرفت میں کیا .
شفا کمرے میں گئی .
اور بلند آواز میں خط کو پڑھنے لگی ، اس خط میں کچھ ایسے الفاظ درج تھے .
“ کتنا حسینہ ھوگا نا ، وہ دن جب تمھارے ہاتھ میرے ہاتھ میں ہونگے ، کتنے خوبصورت ہونگے وہ لمحے جب میں تمہیں اپنے ھاتھوں سے تمہیں كھانا خیلاوگا ، تمہاری ، ہر اک اڈا نے مجھے تمہاری طرف ، مائل کر رہی ہے ، لیکن جانے من میں نے سنا ہے ، كے تم اس حماد كے ساتھ نکاح كے بندھن میں بھندنے جا رہی ہو بھلا تم اپنے پُرانے عاشق کو ، کیسے بیچ راستے تنہا چھور سکتی ہو ، تمہیں تو اندازہ ھوگا نا ، كے میں تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں ، اگر ، تم نے نکاح كے لیے انکار نہیں کیا نا تو تمہاری حقیقت ، میرے لبوں سے لیکر حماد اور اس گھر كےہر فرد كے کانوں تک جائے گی ، خدا حافظ ، تمہارا اسشق “
یہ پڑھ ، شفا كے پیروں تلے زمین نکل گئی ، اسکے منہ سے چییخین نکلنے لگی .
وہ بے حد رونے لگی ، اسکے آنکھوں كے تارے نم ہوگئے ، وہ سہم گئی ، كہ اگر اسکی حقیقت حماد كے سامنے آگئی ، تو حماد ، اسے معاف نہیں کرے گا ، اسکے آنسو نے اسکے کاجل کو نیشتو نابوت کر دیا تھا ، شفا کی آنکھیں ، تیز سرخ ہوگئی “
ڈریسنگ ٹیبل كے کون میں بیحٹ کر شفا ، رونے لگی ، وہ اپنے آپ کو چھپانے لگی .
شرمندگی ، اسکے چہرے پر صاف نظر آراہی تھی .
اور آخر شفا نے دِل پر پتھر رکھ کر ، نکاح سے صاف انکار کر دیا .
• • • • • • • • • • • • • • • • • • • • • • • • • • •
جاری ہے
* * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * *
اپنی رائے کا اظہار کریںر
EPISODE 9.
“ شفا ، آج تم بے حد خوبصورت دِکھ رہی ہو ، اللہ پاك نے کیا حسن عطا فرمایا ہے تمہیں ، کیا ادا ہے تمہاری شفا ، اللہ
نزریبد سے بچائے“
شفا ، کان میں سونحیرئے جھمکے پہنتے بولی ،
“ جناب ، میں نے سنا ہے ، کے تعریفوں ، كے پُل كے نیچے مطلب کی ندیاں بہتی ہیں ، البتہ ، آپ میری خوشامد تو نہیں کر رہے “
حماد ، نے پلک جحپکا کر بولا .
“ اکون کم اقل ہے ، جو تم جیسی ، خوبصورت ، انسان کی خوشامد ، کرے ، البتہ اسکی ، ایسی جسارت بھی ہرگز نہیں ہو نی چاہئے “
شفا - “ حماد ، یہ خوبصورتی ، تو باہری بناوٹ ، ہے ، لیکن اصلی خوبصورتی انسان ، کی سیرت ہے ، جو اسے ، خوبصورت نا ہونے كے بجائے بھی سب لوگوں سے بے حد دلکش اور خوبصورت بناتی ہے”
حماد - شفا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ ، تمہاری سیرت میں کوئی عیب ہو ، یا کھوٹ ہو ، تم تو ہر اندازِ سے پاکیزہ ، اور صاف ، دِل رکھنے والی ، شخص ہو ، بھلا تمہاری سیرت پر کون ، شک کرے گا .
اچانک ، شفا آئینے کی طرف ، سے پلتی ، اوراس نے حماد كے لبوں پر اپنی انگلی رکھی ، اور دھیمی آواز میں لب کشائی کرنے لگی .
“ سش ، اتنی تعریف مت کرو میری ، ورنہ میں مغرور ہوجاوگی ، اور ویسے بھی پاك ذات ، تو صرف اللہ پاك کی ہے ، ہم انسان ، تو گناہوں ، كے سمندر جیسے ہیں ، جو ہر وقت ، غلطیاں کرتے ہیں “
حماد ، نے اپنے لبوں ، سے شفا ، کی انگلی ، حتائیی ، اور پیار كے اندازِ میں بولا .
“ شفا ، تم بے حد اچھی اور پاك ہو ، لیکن اگر میں نے ، اپنے گناہوں ، کا دسترخواہ تمھارے سامنے ، کھول دیا تو تم ، مجھے ایک نظر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کروگی “
شفا ، كے سر پر ، پریشانی کی لکیریں ظاہر ہونے لگی .
“ کیا اول فؤل ، بولے جا رہے ہو ، حماد ، یہ نا ممکن ، ہے ، كے ، میں تم سے خفا ہوں ، تم ، تو میری سانسوں میں بستے ہو ، تمہاری موجودگی ، مجھے اپنے پن کا احساس دلاتی ہے ، تم میرے لیے پانی ، کی طرح ہو جسکے بغیر ، انسان ، زندہ نہیں رہ سکتا ، تم میرے لیے میری زندگی ہو ، بھلا کون اپنی زندگی سے خفا ، ہو سکتا ہے ، غلطیاں کرنا تو انسان ، کی فطرت ہے ، لیکن اگر انسان کو اپنی غلطیوں کا احساس ہو جائے ، تو وہ غلطیاں معافی بھی ، حاصل کر سکتی ہیں ، لیکن گناہ ، کرنا میری نظر میں جرم کی طرح ہے ، گناہوں ، کی معافی خدا دے سکتا ہے ، لیکن گناہوں کی معافی میرے حق میں نہیں “
شفا ، تیار ہوکر وہاں سے جانے لگی ، لیکن حماد ، نے اسکا ہاتھ پکڑا اور شفا کو اپنی طرف کییحچا .
دونوں اک دوسرے کی آنکھوں میں ، دیکھتے رہے ، اور مدھوش ہوگئے ، ایسا لگ رہا تھا ، جیسے اک دوسرے کی آنکھوں میں ان کو راحت مل رہی ہو ، محبت ، انکی آنکھوں میں ، چیہک رہی تھی ، دونوں کی نزدیکی میں صرف ، کچھ انچون کا فاصلہ تھا .
جب سرحان ، كے ہاتھ کی سخت انگلیاں شفا ، كے ملائم ھاتھوں پہ جا لگی .
تو شفا ، کی دِل کی دھڑکنیں بے حد ، رفتار سے دورنے لگی .
شفا ، کی سانسیں تھمنے لگی .
حماد ، شفا ، كے چہرے کو بے حد غور سے دیکھ رہا تھا ، جیسے کوئی کھلی کتاب ہو .
شفا ، کی زلفیں ، أڑ کر ، اسکے چہرے پر آگئی ، حماد نے پیار بھرے ھاتھوں سے ان زلفوں ، کو ہٹایا ، اور شفا کو غور سے نہارنے لگا ، اور اسکے قریب آنے لگا ، حماد شفا كے چہرے پر رفتہ رفتہ ، اپنی انگلیاں گھمانے لگا .
اِس احساس ، کو شفا نے اپنے جسم میں سمایا ، وہ اپنی آنکھیں بُند کرنے لگی ، وہ دونوں اس لمحے کو باقائدگی سے جینے لگے تھے ، دونوں کی نزدیکی انکی چاہت کا ثبوت تھی .
اس کمرے میں بے حد خاموشی تھی ، ہلکی سی آواز بھی اُدھر موجود نا تھی .
لیکن ، سرحان نے ان دونوں کی نزدیکی ، کا مواعینا کیا ، اور اس نے ہلکے ہاتھ سے دروازہ نوک کیا .
یہ دیکھ ، دونوں ، سہم گئے ، شفا ، كے چہرے پر شرمندگی ، نے گھر کر لیا تھا . وہ شرما کر وہاں سے بھاگ گئی ، اور اریبہ كے کمرے میں گئی .
دوسری طرف ، حماد اور سرحان گفتگو کرنے لگے .
سرحان - بھائی ، امی آپکا ، باہر بےصبری سے انتظار ، کر رہین ہیں ، آفٹر آل آپکا آج نکاح ہے .
حماد سرحان كے پاس آیا اور اسنے حماد کے کندھوں پر اپنی بازو رکھی .
- جانتا ہوں ، میرے پیارے سے چھوٹے بھائی ، آج تمہیں رونق لگانی ہے ، میرے نکاح میں .
سرحان ، یہ سن استغفراللہ کرنے لگا .
- خدا کا خوف کریں بھائی ، نکاح ہے کوئی رخصتی نہیں ، ناچ گانے تو شادی کی محفل میں ہوتے ، ہیں ، آپکو اس محفل كے لیے منتظر ھونا پڑے گا ، کیوں کی شفا ، اتنی جلدی رخصتی نہیں کریگی .
حماد ، نے ہلکی ہاتھ سے سرحان كے سر پر تھپڑ مارا اور بولا .
- میرے بھائی ، زیادہ نہیں بولنے لگا تو ، اور سچ پوچھو ، تو وقت بے حد تیز ، چیز ہے ، وقت گزرتے پتہ بھی نہیں چلتا ، کہتے ہیں نا ، صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے ، اور عمر یہیں تمام ہوتی ہے ، اسلئے جلدی شادی بھی ہو جائے گی ، اور تمھارے ساتھ 6 ماہ کا وقت ، ایسی گزرا ہے ، جیسے 6 گھنٹے ہو . . .
سرحان - بھائی ، ٹینشن ناٹ ، شادی نا سہی ، لیکن شادی سے پہلے بھی آپ ، شادی كے مزے لوٹ رہے ہو .
یہ کہہ کر ، سرحان ہس کر وہاں سے فرار ہو گیا .
اور پیچھے سے حماد نے آواز ڈی .
- بیٹا ، رکو امی سے شکایت لگاونگا تمہاری .
دوسری طرف ، مغرب کی نماز كے بَعْد ، سارے لوگ ، گھر كے حال میں
اکھٹا. ہوئے
شفا ، سرخ لال جوڑے میں ملبوس تھی ، اسکے ہاتھ میں سونے ، كے دلکش کنگن تھے ، شفا ، کا گلا سونے كے ہار ، سے تنزیب تھا ، اور اسکے ماتحیے پر اک چنری .
دوسری طرف ، کالا کرتا اور پیشاواری چپل پہن کر حماد نکاح ، کی تقریب میں بہتا .
قاری صاحب نے نکاح کی تقریب کا آغاز کیا .
شفا ، اور حماد دونوں کی نظریں اک دوسرے سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی .
دیوانوں کی طرح وہ دونوں اک دوسرے کو تک رہے تھے .
لیکن ، نکاح كے تقریب كے دوران ، ایسا حادثہ پیش آیا ، جس نے شفا اور حماد کی زندگی کا پاسا پلٹ دیا .
مولوی صاحب ، نے شفا سے بے حد مرتبہ نکاح کی حازری کا پوچھا .
- کیا ، آپکو حماد بن کومیل سے نکاح منظور ہے .
لیکن ، شفا منہ پر تالا لگا کر بہتی تھی ، وہ بالکل چُپ تھی ، اسکی خاموشی ، اسکے انکار ، کو صاف ظاہر کر رہی تھی .
نکاح ، کی رضامندی ، پوچھتے پوچھتے د مولوی صاحب کا گلہ خشک ہو گیا ، لیکن شفا نے اپنے لبوں سے اک الفاظ نہیں ، نکالا . .
اریبہ ، بلکل خوفزدہ ہوگئی ، وہ شفا کو
تسلی دینے لگی ، اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر بولنے لگی .
- شفا بیٹے ، کیا بات ، ہے مولوی صاحب جو پوچھ رہے ہیں جواب دو ، اگر کوئی پریشانی تمہیں ستا رہی ہے ، تو تم مجھے بتا سکتی ہو ، یہاں گھروالوں كے علاوہ ، کوئی نہیں ، تم بے شک اپنی پریشانی کا اقرار کر سکتی ہو .
یہ ، سن ، شفا کی آنکھیں نم ہوگئی ، اسکی زبان لرخرانے لگی ، یہ الفاظ کہنے سے ، وہ بے حد کترائی ، یہ جسارت کرنے سے شفا نے اپنے آپکو روکا ، لیکن یہ نا کرنا اسکے حق میں نہیںُ تھا .
شفا ، کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے .
“ امی ، میں یہ نکاح نہیں کر سکتی ، یہ سمجھ لیجیے كے یہ میری مجبوری ہے”
یہ ، کہہ کر شفا ، اپنے آنسو پوچھتے پوچھتے ، شفا وہاں سے روانہ ہوگئی .
شفا ، كے انکار ، نے حماد کو خفا کر دیا ، اِس انکار نے حماد کا دِل پاش پاش کر دیا ، حماد کی آنکھوں میں نمی نے گھر کر لیا . . . .
اس نے شفا ، سے بات کرنے کی ٹھانی ، لیکن اریبہ نےاسے یہ کرنے سے روکا .
- حماد ، بیٹا اسے وقت دو ، وقت ہر مرض کا علاج ہے .
حماد ، نے اپنی ماں کی بات کی لاج رکھی ، اور اس نے اپنے قدم وہیں روک دئیے .
شفا ، کا انکار ، محض اسکی اک مجبوری تھی .
یہ ساری رنجشیں ، اور درارئین ، اس محبت كے خط ، کی سازش تھی ، جو اک لال گلاب كے ساتھ ، شفا كے ہاتھ لگا .
نکاح سے چند مینت پہلے کی بات تھی .
شفا ، ہاتھ میں بدام کا دودھ لے کے ، اریبہ كے کمرےمیں جا رہی تھی .
اچانک ، گھر کی دیلحییز پر اس نے وہ خط دیکھا ، اور اس نے کٹھ اپنی گرفت میں کیا .
شفا کمرے میں گئی .
اور بلند آواز میں خط کو پڑھنے لگی ، اس خط میں کچھ ایسے الفاظ درج تھے .
“ کتنا حسینہ ھوگا نا ، وہ دن جب تمھارے ہاتھ میرے ہاتھ میں ہونگے ، کتنے خوبصورت ہونگے وہ لمحے جب میں تمہیں اپنے ھاتھوں سے تمہیں كھانا خیلاوگا ، تمہاری ، ہر اک اڈا نے مجھے تمہاری طرف ، مائل کر رہی ہے ، لیکن جانے من میں نے سنا ہے ، كے تم اس حماد كے ساتھ نکاح كے بندھن میں بھندنے جا رہی ہو بھلا تم اپنے پُرانے عاشق کو ، کیسے بیچ راستے تنہا چھور سکتی ہو ، تمہیں تو اندازہ ھوگا نا ، كے میں تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں ، اگر ، تم نے نکاح كے لیے انکار نہیں کیا نا تو تمہاری حقیقت ، میرے لبوں سے لیکر حماد اور اس گھر كےہر فرد كے کانوں تک جائے گی ، خدا حافظ ، تمہارا اسشق “
یہ پڑھ ، شفا كے پیروں تلے زمین نکل گئی ، اسکے منہ سے چییخین نکلنے لگی .
وہ بے حد رونے لگی ، اسکے آنکھوں كے تارے نم ہوگئے ، وہ سہم گئی ، كہ اگر اسکی حقیقت حماد كے سامنے آگئی ، تو حماد ، اسے معاف نہیں کرے گا ، اسکے آنسو نے اسکے کاجل کو نیشتو نابوت کر دیا تھا ، شفا کی آنکھیں ، تیز سرخ ہوگئی “
ڈریسنگ ٹیبل كے کون میں بیحٹ کر شفا ، رونے لگی ، وہ اپنے آپ کو چھپانے لگی .
شرمندگی ، اسکے چہرے پر صاف نظر آراہی تھی .
اور آخر شفا نے دِل پر پتھر رکھ کر ، نکاح سے صاف انکار کر دیا .
• • • • • • • • • • • • • • • • • • • • • • • • • • •
جاری ہے
* * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * *
اپنی رائے کا اظہار کریںر



Comments
Post a Comment