EPISODIC NOVEL.

ISHQ KI INETHA
SEASON 2
EPISODE 1

‎“کومیل ، جلدی آئیں ادھر ، سونو مو  کا دودھ لے کے آئیں ، بچھڑے دونوں بہت رَو رہے حاین”

‎کی کچن کی طرف    
‎سے آواز
اۂی

‎“ شوھر نہیں ہوا ، کوئی ملازم ہو گیا ، لا رہا ہوں دودھ اریبہ ، اور ویسے بیگم ان دونوں کا بھی نام ہے ، حماد اور
سرھان
‎اریبہ : “ پتہ ہے مجھے لیکن یہ دونوں میرے لیے ہمیشہ سونومونو  ہی رہینگے “

‎کومیل نے پیار سے بولا .

‎“ بیگم ، کبھی دو عدد توجہ اپنے اِس مسکین شوھر کی طرف بھی دیدیجیی ، نا کے ان دحولو بحولو کو”

‎اریبہ :کومیل یہ کیا ، میں ان کو سونو منو ، بولتی ہوں ، تو آپ چرتے ہَیں ، اور جناب جو آپ ان دونوں کو عجیب عجیب ناموں سے پکارتے ہے اسکا کیا “

‎کومیل: چلوحال میں چلتے ہَیں ، تمہیں کچھ دکھانا ہے .

‎اریبہ : ہاںروکیے  چلتی ہوں .

‎کومیل: ایسے  نہیں اپنی آنکھیں بند کرو .

‎اریبہ : اچھا اوکے .

‎کومیل اریبہ کوحال کی طرف لےگیا جہاں سیاہ اندھیرا تھا .

‎اچانک ،چمچماتی بتیان جلی اور اریبا  كے سامنے اک بڑا سا خوبصورت کیک پڑا تھا “ .

‎کومیل نے اریبہ سے پیار اور محبت سے کہا .
‎“ ہیپیی عنورسیری جان “

‎اندونو نے کیک کاٹا اور پیار محبت سے سیلفیی لی .

‎اچانک اسکا ، بڑا بیٹا ، حماد آیا ، اور چییکنے  لگا .

‎یہ صرف اریباکے  محض خیالات تھے ، جو وہ اپنی محبت کو یاد کر رہی تھی ،
‎کومیل پورے  7 سال پہلے اریبہ کو تنہا ، بے بس ، اور دو بچوں کی ذمہ داری اسکےکندھوں  پر رکھ كے ، اِس دنیا سے روانہ ہوا ، اور اریبہ اب ایک ویمپائر بھی نہیں رہی تھی .

‎کچھ لمحوں بَعْد اریبہ اپنے بچوں ک کمرے میں گئی .

‎اریبہ نے غصے كے اندازِ میں اپنے بچوں کی ڈانٹ ڈپٹ کی .

‎“ہماد، تم نے اتنی زور سے کیوں چیکا ، میری  جان ہی نیکالدی تھی تم نے “

‎تو اریبہ کا چھوٹا بیٹا ، سرحان بولا .

‎“ امی حماد بھائی ، مجھے مار رہے تھے ، تو میں نے بھی ان کو مارا تو ،وہ چلانے
‎  لگے “

‎اریبہ نے اپنے بیٹو کو پیار سے سمجھایا
‎“ دیکھوں ، بچوں ہمارا اِس دنیا میں ، کوئی نہیں ، اور یہ گاؤں بھی ہمارے لیے ایک دم نیا ہیں ، تو میں تم لوگوں سے ، یہ چاہتی ہوں کی ، مجھے تنگ مت کرو “

‎حماد : امی ساری شرارت یہ سرحان کرتا ہے ، اور میرے چییکنھے  کا یہ سبب تھا ، کے اچانک میرے پاؤں سرخ ھونے لگے ، البتہ اچانک بلکل درست ہو گیا “

‎امی یہ ہر باڑ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے .

‎اریبہ ، نے اپنے بیٹے کی باتوں کو نظرانداز کردیا ، اور بات کو تال دیا .

‎البتہ ، اریبہ اپنے بیٹو كے ساتھ ایک چھوٹے سے گاؤں ، میں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ رہی تھی .

‎لیکن گویہ ، قسمت کو کچھ الگ ہی منظور تھا ، اُس گاؤں ، میں اک دِل دیحلانے والا سیلب آیا ، جس نے پورا پاسا پلٹ دیا .

‎پورے گاؤں كے لوگ سَر پر پاؤں رکھ کر بھاگنے لگے ، البتہ ، اریبہ اکیلی اور تنہا تھی .

‎وہ بھی اپنے بچوں كے ساتھ ، بھاگنے لگی چناچہ اسکی طبیعت بگڑ رہی تھی .

‎پانی دو مجھے پانی ، میری طبیعت بہت بگڑتی جا رہی ہے .

‎وہ باڑ باڑ اپنے بچوں کو بولتی رہی ، اسکی آوازمیں ایک خوف اور ایک خوفناک چیز کا اندیشہ تھا ، جو پوری دُنیا کا پاسا پلٹ دیتا .

‎میں کہہ رہی ہوں ، تم دونوں جاؤ یہاں سے ، میری “فکر مت کرو .

‎لیکن امی جان ہم آپکو یہاں سیاہ اندھیرے میں کیسے چھور كے جائینگے ، یہ بہت خوفناک جگہ ہے اور بلکل سنسان ہے . ایسا لگ رہا ہے یہاں پہ کوئی اُلو بول رہا ہے .

‎اسکے بیٹے بے حد پریشانی میں مبتلا تھے ، وہ بار بار ان کو جانے کا کہہ رہی تھی ، لیکن ان دونوں نے اسکی بات خاطر میں نہیں لائی .

‎بھائی ہم امی کو کیسے چور کر جائیں ، وہ بھی “اِس بری حالت میں .

‎تم چلو یہاں سے پیچھے ایک خطرناک سیلب ارحا ہے .

‎تاہم بھائی ، میرے  ہاتھ سرخ ہو رہے ہَیں .

‎حماد : کیا بول رہے ہو ، یہ سب وہم ہے تمہارا .

‎وہ پیچھے سے بلند آواز میں بولی .

‎“ بیٹا تم دونوں جاؤ ، یقین مانو  مجھے کچھ نہیں ھوگا ، تم دونوں روانہ ہو”
میں جلدی واپس اونگی ۔

‎بھائی میں امی کو چھور کر کہیں نہیں جاؤنگا .

‎وہ پِھر بولی

‎“ میری جان ، وہ سیلاب تم دونوں کو لے دوبیگا ، اِس اندھیرے میں تم کاہان بھت کوگے  ، میری حالت بہت خراب ہے ، تم دونوں آگے شہر سے بس پکڑ کر روانہ ہو جاو”

‎اسکا بڑا بھائی بولا .
‎“ ہمیں اپنی جان کی حفاظت کرنی ھوگی ، میں نے امی سے پرامس کیا ہے ، تمہیں چلنا ھوگا “

‎وہ دونوں وہاں سے چلے گئے .

‎اور وہ سیلاب پورے  گاؤں کو اپنے ساتھ لے ڈوبا .

‎حماد اور سرحان ، اکیلے اور تنہا ،  ایک ریل گاری  میں سوار تھے ، وہ دونوں انتھ انتھ آنسو رَو رہے تھے .

‎سرحان : “ بھائی مجھے امی کی بہت یاد آ رہی ہے ، مجھے امی كے پس جانا ہے “ .

‎حماد :سرحان  تم بات کو کیوں نہیں سمجھ رہے ، میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ، ہمیں اپنی قسمت کو تسلیم کرنا ھوگا “

‎سرحان باڑ باڑ اپنی والدہ كے پاس جانے کا بول رہا تھا ، لیکن ہرگزحماد  نےاسے  ایسا کرنے  کی اِجازَت نہیں ڈی .

‎سر حان اور حماد بے حد رَو رہے تھے .
‎ایک لمحے كے لیے حماد کی نظر ھتھی ، اور سرحان نے اپنی ماں كے پاس جانے كے لیے چلتی ہوئی ریل سے چھلانگ ماری .

‎حماد بہت پریشان ، ہو گیا اس نے اپنے بھائی کو ، دحوند ے  کے لیے ھاتھ پیر مارے  ، زمین آسْمان ایک کردیا لیک
سرحان نہیں ملا۔
‎“ اب میں امی کو کیا جواب دونگا ، میرا بھائی “کاہان چلا گیا “

‎“ اے خدا میرا بھائی جہاں بھی ہو سہی سلامت رکھنا ، اور ایک نا ایک دن ھمیں ضرور ملانا “ .

‎پیچھے سے ایک خوفناک خبر .
ملی
‎“ بھاگو یہاں سے ، ریل میں آگ لگ گئی ہے ، سارے ایمرجنسی دروازے سے چھلانگ مارلو  “

‎حماد : مجھے اپنی جان بچانی  ھوگی ، مجھے یہاں سے چھلانگ لگانی پڑے گی .

‎حماد چھلانگ لگاتے ہوئے زمین پر گر گیا ، اور وہ بے ہوش ہو گیا .

‎وہ اک شہر تھا ، جہاں پر دو میاں بِیوِی نےحماد  کو دیکھا ، اور اسکی طرف گئے .

‎ان دونوں میاں بِیوِی کا نام  طاہر اور رفیعہ تھا .

‎طاہر : رفیعہ مجھے یہ بچہ کسی اچھے گھر کا لگ رہا ہے .

‎رفیعہ : ہاں اسکو گھر لے چلتے ہَیں بڑا مال ہاتھ لگے گا .

‎طاہر : تم ہمیشہ پیسون كے پیچھے پڑی رہتی ہو ، اِس معصوم مسکین بچے کو گھر لے چلو .

‎رفیعہ : اوئے جی ، کیا ہم بچے سنبھالنے والے ہَیں .

‎طاہر : تم سے بحث کرنا فضول ہے گویہ تمہاراہر کسی کے ساتھ چھتیس  کا آکرا ہے ، اب اِس بچے کو گھر لے کے چلتے ہَیں ، اسکی طبیعت بے حد نازک ہے ، اور اس کے ہاتھ کانپ  رہے ہَیں اور یہ نیلا پیلا پر گیا ہے ، لگتا ہے کسی طوفانی حادثے کا سامنان کیا ہے .

‎رفیعہ : باتیں نہیں کریں ، گھر لے کے چلیں .

‎طاہر : ہاں بیگم .

‎وہ دونوں میاں بِیوِی حماد  کو اپنے ساتھ اپنے گھر لیکر گئے .

‎دوسری طرف ،سرحان ہر جگه اپنی امی کو ڈھونڈنے میں لگا ہوا تھا ، وہ بے چارہ بے حد پریشان تھا ، اسکی امی نہیں مل رہی تھی ، اور اسکی امیدوں پر اوس پر گئی تھی ، وہ بے حد تھک چکا تھا ، وہ بے حد بھوکا تھا ، اسکے انتےقل ھو  اللہ پڑھ رہے تھ .

‎گویہ بھوک اور پیاس كے بعض وہ بے ہوش ہو گیا .

‎لیکن خدا نے اُس بچے کی جان کی حفاظت کرنی کی ذمہ داری لی ی .

‎البتہ ، ایک گاؤں كے کسان ، نے اسے دور سے دیکھا ، اورسرحان كے قریب آیا .

‎وہ کسان بے حد رحم دِل تھا ، اور غریب بھی تھا ، اور اسکانام مٹھو تھا .

‎مٹھو : “ یہ کس کا بچہ ہے ، اسکی طبیعت بے حد خراب ہے ، مجھے اسے اپنے گھر لے جانا ھوگا “

‎مٹھو کی کوئی اولاد نہیں تھی ، اور وہ ایک دم اکیلا تھا .

‎اس نے من ہی من میں ،سرحان کی تربیت اور پرورش کا بیڑا اٹھا لیا .

‎وہ دونوں بھائی ،ایک  دوسرے سے جدا ہوگئے تھے ، اور نئے لوگوں اور نئے شہروں كے بیچ میں پھس  گئے تھے .
*
*
*

* * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * *

‎اب دیکھتے ہَیں آگے کیا ھوگا .
‎کیا قسمت دو بھائیوں کو ملا گی یا ہمیشہ كے لیے جدا کردےگی .



‎جاری ہے

Comments

Popular Posts